یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر ان کے تلووں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدمو سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہو رہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلین جھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منھ اپنا دیکھتے تھے
یہی سماں تھا کہ پیکِ رحمت خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تمھاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے محمد قریں ہو احمد قریب آ سرورِ ممجد
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
تَبَارَکَ اللہُ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرَانِیْ کہیں تقاضے وصال کے تھے
خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
سُراغِ اَین و مَتٰی کہاں تھا نشانِ کیف و الیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے
اُدھر سے پیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت اُبھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجھکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قراب انھیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں میں ترقی افزا دَنٰی تَدَلّٰی کے سلسلے تھے
ہوا نہ آخر کہ ایک بجرا تموّجِ بحرِ ہُوْ میں اُبھرا
دَنٰی کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھا دیے تھے
کسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا
بھرا جو مثلِ نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے
اٹھے جو قصرِ دَنٰی کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کی باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوطِ واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سےملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
اُدھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں اِدھر سے انعامِ خسروی میں
سلام و رحمت کے ہار گندھ کر گُلوئے پُر نور میں پڑے تھے
زبان کو انتظارِ گفتن تو گوش کو حسرتِ شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
سُرورِ مقدم کی روشنی تھی کہ تابشوں سے مہِ عرب کی
جناں کےگلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طرب کی نازش کہ ہاں لچکیے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے
یہ جوشِ ضِدّین تھا کہ پودے کشاکشِ ارّہ کے تلےتھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
نَبِّیِ رحمت شفیعِ اُمّت رضؔا پہ للہ ہو عنایت
اِسے بھی اُن خلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبولِ سرکار ہے تمنّا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے
❁〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️✰✰✰〰️〰️〰️〰️〰️〰️❁
📚 حدائقِ بخشش
_______
پیشکش:- www.UnlimitedShayari.in
_______
♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ ⌲
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ
आप सभी से निवेदन है कि सही कमेंट करें, और ग़लत शब्दों का प्रयोग ना करें