Thi hum aagosh magar lyrics | Qateel Shifai
تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
وہ اک ایسا لمس تھا جس میں بدن شامل نہ تھا
ریت کی دلدل ملی مجھ کو سمندر پار بھی
میں وہاں اترا جہاں ساحل کبھی ساحل نہ تھا
وہ تو اک سازش تھی میرے خون کی میرے خلاف
جس کے سر الزام آیا وہ مرا قاتل نہ تھا
ہم نے کاٹے پیڑ تو سایوں کی یاد آنے لگی
لیکن اب حرف ندامت سے بھی کچھ حاصل نہ تھا
سر پہ آ گرتا ہے تکمیل محبت کا پہاڑ
ورنہ اظہار تمنا تو کوئی مشکل نہ تھا
پر لگا کر اڑ گئے آخر مری نیندوں کے ساتھ
پیار کے وہ خواب جن کا کوئی مستقبل نہ تھا
ان سے مل کر یہ بھی دیکھی شعبدہ بازی قتیلؔ
دھڑکنیں موجود تھیں سینے میں لیکن دل نہ تھا
قتیل شفائی
ریت کی دلدل ملی مجھ کو سمندر پار بھی
میں وہاں اترا جہاں ساحل کبھی ساحل نہ تھا
وہ تو اک سازش تھی میرے خون کی میرے خلاف
جس کے سر الزام آیا وہ مرا قاتل نہ تھا
ہم نے کاٹے پیڑ تو سایوں کی یاد آنے لگی
لیکن اب حرف ندامت سے بھی کچھ حاصل نہ تھا
سر پہ آ گرتا ہے تکمیل محبت کا پہاڑ
ورنہ اظہار تمنا تو کوئی مشکل نہ تھا
پر لگا کر اڑ گئے آخر مری نیندوں کے ساتھ
پیار کے وہ خواب جن کا کوئی مستقبل نہ تھا
ان سے مل کر یہ بھی دیکھی شعبدہ بازی قتیلؔ
دھڑکنیں موجود تھیں سینے میں لیکن دل نہ تھا
قتیل شفائی
आप सभी से निवेदन है कि सही कमेंट करें, और ग़लत शब्दों का प्रयोग ना करें