Saya e zulf siyah faam kahan tak pahunche |Qateel Shifai
سایۂ زلف سیہ فام کہاں تک پہنچے
جانے یہ سلسلۂ شام کہاں تک پہنچے
دور افق پار سہی پا تو لیا ہے تجھ کو
دیکھ ہم لے کے ترا نام کہاں تک پہنچے
یہ سسکتی ہوئی راتیں یہ بلکتے منظر
ہم بھی اے سایۂ گلفام کہاں تک پہنچے
نہ کہیں سایۂ گل ہے نہ کہیں ذکر حبیب
اور اب گردش ایام کہاں تک پہنچے
ہم تو رسوا تھے مگر ان کی نظر بھی نہ بچی
ہم پہ آئے ہوئے الزام کہاں تک پہنچے
مطمئن گرمیٔ احساس جفا سے بھی نہیں
دل کو پہنچے بھی تو آرام کہاں تک پہنچے
ان کی آنکھوں کو دیئے تھے جو مری آنکھوں نے
کس سے پوچھوں کہ وہ پیغام کہاں تک پہنچے
قتیل شفائی
आप सभी से निवेदन है कि सही कमेंट करें, और ग़लत शब्दों का प्रयोग ना करें